وسائل كی منصفانہ تقسیم
كسی بھی ریاست كی ترقی اور خوشحالی كے لیے ضروری ہے كہ اس كے پاس وافر وسائل ہوں تاكہ لوگوں كی ضروریات زندگی آسانی سے پوری كی جا سكیں۔ ترقی یافتہ ممالك كی مثال ہمارے سامنے ہے جو كہ وسائل كے حوالے سے مالا مال ہیں۔ وہ آسانی سے اپنے شہریوں كی ضروریات كو پورا كر سكتے ہیں۔
ایك فلاحی ریاست كے قیام كے لیے لازم ہے كہ ملك كے اندر وافر وسائل ہوں تاكہ لوگ ذہنی، معاشی اور معاشرتی اطمینان سے اپنی اپنی صلاحیتوں كے مطابق كام كر كے ریاست كی ترقی اور خوشحالی كا باعث بنیں۔ مگر ترقی پذیر ممالك كا ایك بڑا مسئلہ یہ ہے كہ ان كے وسائل كے مقابلہ میں ان كے مسائل بہت زیادہ ہیں۔ دوسرے یہ كہ تمام علاقے وسائل كے حوالے سے برابر نہیں ہے۔
پاكستان ایك ترقی پذیر ملك ہونے كے ساتھ ساتھ ایك زرعی ملك بھی ہے جہاں پر وسائل كی كیفیت علاقوں كے حوالے سے بہت مختلف ہے۔ ایك طرف ہم پنجاب اور سندھ كا وسیع زرعی علاقہ دیكھتے ہیں جو كہ زرعی اجناس كی دولت سے مالا مال ہے تو دوسری طرف بلوچستان اور سرحد كا پہاڑی بنجر علاقہ ہے جہاں پر زرعی پیداوار نہ ہونے كے برابر ہے۔ معدنی وسائل كے حوالہ سے بھی پاكستان كے مختلف علاقوں میں بڑا فرق پایا جاتا ہے۔
بلوچستان اور سرحدی صوبے میں وسیع معدنیات ہیں مگر ان سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا ۔ پاكستان میں زراعت اور معدنیات كے شعبہ میں فرق كے ساتھ ساتھ زندگی كے دیگر شعبوں میں بھی نمایاں فرق نظر آتا ہے۔ دیہاتوں میں رہنے والے لوگوں كے لیے تعلیم، صحت اور دیگر شعبوں میں ملنے والی سہولیات شہری علاقوں سے مختلف ہیں۔
دولت اور وسائل كی اس قدر غیر متوازن تقسیم نے لوگوں كے اندر احساس محرومی كے جذبات پیدا كر دیے ہیں جو كہ كسی طرح بھی ریاست كی بقا، ترقی اور خوشحالی كے لیے نیك شگون نہیں ہے۔ آبادی میں تیزی سے اضافہ بھی وسائل كی غیر منصفانہ تقسیم كا باعث بنتا ہے۔ ہمارے معاشرتی نظام میں قائم فرسودہ روایات نے بھی وسائل كی غیر متوازن تقسیم كو قائم اور برقرار ركھنے میں اہم كردار ادا كیا ہے۔